ایک اور صنعت بحران کا شکار نصابی کتب بہت سے طلبہ کی قوت خرید سے باہر
آصف حبیب کے لیے رواں سال اپنے تین بچوں کے لیے نئی کتابیں خریدنا ممکن نہ تھا۔ حد سے بڑھی ہوئی قیمت اور نئی کتابوں کی عدم دستیابی نے انہیں بچوں کے لیے استعمال شدہ کتابیں خریدنے پر مجبور کردیا۔ اس بابت ان کا کہنا تھا کہ ’’کئی دوسرے والدین نے پرانی یا ’سرقہ ‘ (غیر قانونی طور پر نقل کی گئی) کتابیں خریدی ہیں اور یہ قابل فہم بھی ہے۔”
آصف نے مزید کہا، “میں نے پچھلے سال پرائمری کلاس کی تمام کتابیں 12 ہزار روپے میں خریدی تھیں اور اس سال اُسی کورس کی قیمت تقریباً 20 ہزار روپے ہے۔ اس کے باوجود، بہت سی کتابیں بک اسٹورز پر دستیاب بھی نہیں،”
یہ حالتِ زار زیادہ تر والدین کی ہے جن کے وسائل بچوں کو معیاری تعلیم دینے اور اپنے گھر کا کچن چلانے کے درمیان ہی کہیں ’چُھو منتر‘ ہو جاتے ہیں۔درسی کتب کے سب سے بڑے پروڈیوسر اور سپلائر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اس سال قیمتیں اوسطاً 12 فیصد بڑھائیں۔ پیراماؤنٹ سمیت دیگر پبلشرز نے بھی قیمتوں میں اسی حد تک اضافہ کیا۔
آکسفورڈ پریس کے ایک رکن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کاغذ اور دیگر پرنٹنگ مواد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ روپے کی قدر میں کمی نے اس کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں کاغذ کی قیمتیں بڑھیں، پھر سپلائی چین کے مسائل اور کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی۔ ہمیں پچھلے چند مہینوں کے دوران کاغذ کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے مارکیٹ میں کتابوں کی فراہمی میں تاخیر ہوئی۔